pakistan

نوید سعید—لاہور پولیس کا بہادر مگر متنازع افسر چند مرلے زمین کے جھگڑے میں مارا گیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب پولیس کے انسپکٹر نوید سعید گجر کا شمار اُن افسران میں کیا جاتا ہے جو ایک طرف بے خوف، دلیر اور جری سمجھے جاتے تھے جبکہ دوسری طرف اُن پر کرپشن کے سائے بھی ہمیشہ موجود رہے۔ نوید سعید نے لاتعداد بدنام گینگز اور مختلف مافیا گروہوں کے خطرناک افراد کو انجام تک پہنچایا، مگر دولت کی حرص نے اس کی نیک نامی کو بارہا دھندلایا۔ یہی وہی انسپکٹر تھا جس پر الزام ہے کہ اس نے سابق صدر آصف علی زرداری کو پولیس حراست میں سخت تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران اُن کی زبان تک زخمی ہو گئی تھی۔

نیکسٹ پیڈیا نیوز ڈاٹ کام کے مطابق پولیس مقابلوں میں مہارت رکھنے والا اور درجنوں افراد کو مارنے والا یہ برطانوی شہریت کا حامل انسپکٹر چند مرلے زمین کے تنازعے میں اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ انڈر ورلڈ کے بدنام ٹاپ ٹین کو انجام دینے کی وجہ سے اس کا نام لاہور پولیس کی تاریخ میں ایک نمایاں باب بن گیا اور اسے ایک ہیرو کا درجہ بھی ملا۔

نوید سعید کی شہرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب اُس نے پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سلیمان تاثیر کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران تھپڑ رسید کیا۔ اسی طرح کراچی جا کر جسٹس نظام قتل کیس میں آصف علی زرداری سے تفتیش کے دوران اُن پر مبینہ تشدد بھی اُس کی زندگی کا متنازع ترین واقعہ بنا۔

کبڈی کے کھلاڑی کے کوٹے پر پولیس میں بھرتی ہونے والے اس سب انسپکٹر نے اپنے مضبوط جسم اور بے خوف طبیعت کی وجہ سے جلد ہی اعلیٰ حکومتی حلقوں تک رسائی حاصل کر لی اور مختلف سیاسی معاملات میں بھی اسے کردار سونپا جاتا رہا۔ کروڑوں روپے کی جائیداد اور بے تحاشا دولت کے باوجود اُس نے مزید پیسے کی خواہش میں لینڈ مافیا کا حصہ بننا بھی گوارا کر لیا، اور بالآخر اسی راستے نے اسے چند ماہ بعد موت کے گڑھے تک پہنچا دیا۔

نوید سعید جہلم کے ریٹائرڈ صوبیدار محمد سعید کا بیٹا تھا اور گیارہ بہن بھائیوں میں شامل تھا۔ اُس کی ابتدائی تعلیم جہلم میں ہوئی اور پھر اسے لاہور بھیج دیا گیا جہاں اُس نے 1982 میں عارف ہائی سکول دھرم پورہ سے میٹرک پاس کیا۔ پرائیویٹ ایف اے کے بعد پولیس میں شمولیت اختیار کی۔ اُس کی بھرتی میں میجر محمد اکرم گجر کی سفارش بنیادی کردار رکھتی تھی۔

کبڈی ٹیم کے صوبائی چیمپئن بننے پر اسے براہ راست سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور پھر شاہین فورس لاہور میں اس کی تعیناتی ہوئی جہاں اس نے اُس دور کے مشہور افسران کے ساتھ کام کیا۔ رانا مقبول کے زمانے میں لاہور کے بڑے تھانوں میں اسے اہم ذمے داریاں ملتی رہیں۔ اپنے دور میں وہ ٹاپ ٹین ڈاکوؤں، اشتہاریوں اور کرائے کے قاتلوں کے لیے ایک خوف کی علامت تھا۔ ملنگی، ناجی بٹ، ہمایوں گجر، ثنا، حنیفا، شفیق بابا اور بھولا سنیارہ سمیت کئی خطرناک جرائم پیشہ عناصر اس کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔

وقت گزرنے کے ساتھ بعض ٹاپ ٹین ملزمان سے اس نے دوستیاں بھی قائم کر لیں اور دبئی میں ان کے ساتھ کاروبار بھی کیا۔ ایک جھگڑے کے بعد جب اس نے ایک مقامی گروہ کو مارا تو اسے ’پہلوان‘ کا لقب مل گیا، جبکہ کبڈی کے کھیل نے پہلے ہی اس کی شہرت بڑھا رکھی تھی۔

ترقی اور دولت نے اس کی زندگی میں مسلسل راستے کھولے مگر اس کے خلاف شکایات بھی بڑھتی گئیں۔ ایک لڑائی کے نتیجے میں اس کے خلاف درخواست پر انکوائری ہوئی اور اسے ملازمت سے نکال دیا گیا، مگر جلد ہی دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ بعد ازاں لاہور کے بڑے تھانوں کی وہ اپنی مرضی سے پوسٹنگ لیتا رہا اور اپنے قریب ترین پولیس اہلکاروں کو بھی من پسند تعیناتیاں دلواتا رہا۔

نوید سعید نے اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی کی جو برطانوی شہری تھی۔ اس کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جبکہ ایک بیٹا پیدائشی بیماری میں مبتلا تھا جس کے علاج کے لیے وہ اسے مختلف ماہرین کے پاس لے جاتا رہا۔

لاہور کے ٹاپ ٹین مجرموں—میاں داؤد، ثنا گجر، ناجی بٹ، حنیفا، شفیق بابا، بھولا سنیارا وغیرہ—کے ساتھ اس کے کبھی دوستانہ کبھی دشمنانہ روابط رہے۔ ان میں سے اکثر بعد میں مارے گئے اور کئی براہِ راست اس کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔

حنیفا اور شفیق بابا کے معاملے میں اُس نے دبئی میں اُنہیں بلایا، کراچی ہوٹل میں ٹھہرایا اور پھر لاہور پولیس کے حوالے کیا۔ اگلے روز وہ دونوں اور ان کے ساتھی پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ شفیق بابا نے الزام لگایا کہ نوید نے دھوکے سے اسے پکڑوایا ہے اور اس نے نوید سعید کو مارنے کا عزم بھی کر لیا۔ متعدد بار کوشش بھی کی مگر ناکام رہا۔ آخرکار کراچی میں گرفتار ہونے کے بعد وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

نوید سعید کے خلاف حنیفا اور بابا کے والد نے ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی۔ اس کے باوجود وہ لاہور پولیس کی تاریخ میں ایک جری افسر کے طور پر یاد رکھا جاتا رہا۔ اعلیٰ افسران جب کسی خطرناک ملزم پر ہاتھ ڈالنے سے انکار کرتے تو آخری انتخاب نوید سعید ہی ہوتا تھا۔ وہ مجرموں سے پہلے رابطہ رکھتا، پھر انہیں قانون کے شکنجے میں لاتا اور پولیس مقابلوں کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ بعض رپورٹس میں اس کے ہاتھوں 100 سے زائد افراد کے مارے جانے کا ذکر ہے۔

جعلی پولیس مقابلوں کے مقدمات، جوڈیشل انکوائریاں اور دشمنیاں بڑھتی گئیں جس کی وجہ سے اسے خود بھی یقین تھا کہ ایک دن اس کی موت قتل کی صورت میں ہی آئے گی۔ سیاسی حلقوں میں اثرورسوخ بڑھنے کے بعد اسے حکومتی مخالفین کو دباؤ میں لانے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا اور یوں کبڈی کا کھلاڑی سیاسی شطرنج کے تخت پر مہرہ بنتا گیا۔

پنجاب اسمبلی میں سلیمان تاثیر کو تھپڑ مارنے کا واقعہ ہو یا آصف علی زرداری پر مبینہ تشدد—دونوں نے اسے میڈیا کی توجہ کا مرکزی نقطہ بنا دیا۔ اسے کئی بار معطل کیا گیا مگر ہر بار بحال بھی ہوتا رہا۔

آخرکار لینڈ مافیا میں قدم رکھنے کے بعد چند ماہ کے اندر ہی وہ ایک معمولی زمین کے جھگڑے میں اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا، اور یوں پنجاب پولیس کا یہ متنازع مگر بے خوف انسپکٹر اپنی ہی پیشہ ورانہ جنگوں کے گرداب میں ڈوب گیا۔ ⚔️🔥

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *