pakistan

فیصل موور پر بیٹی کیساتھ اسلام آباد کا سفر

آج میں اپنی بیٹی ماریہ کے ساتھ فیصل موور میں اسلام آباد کالج چھوڑنے جا رہا تھا۔ رات کا وقت تھا، کوچ میں مکمل خاموشی۔ اچانک میری بیٹی نے میرا بازو تھاما، اپنا سر میرے کندھے پر رکھا اور بہت اداس لہجے میں بولی:

“بابا…!! سوری”

میں نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، “کس بات کی سوری بیٹا؟”

کہنے لگی:
“آپ میری ضد پر تیس دن میں تیسری بار اسلام آباد جا رہے ہیں۔ آفس کا کام ڈسٹرب ہوتا ہے، مسلسل سفر، نیند پوری نہیں ہوتی، تھک بھی جاتے ہیں… میں نے آپ کو تنگ کیا۔”

میں نے اسے پیار سے دیکھا اور کہا:
“بیٹا، یہ سب کچھ کچھ بھی نہیں… میرے بہت سے کام دوستوں کے سہارے آسان ہو جاتے ہیں۔ لیکن تم جانتی ہو، میں کتنا بھی تھکا ہوا، ذہنی یا جسمانی طور پر مایوس کیوں نہ ہوں… ایک بات ہے جو میری ساری تھکن اتار دیتی ہے۔”

اس نے پوچھا:
“کون سی بات بابا؟”

میں نے کہا:
“جب میں صبح آفس کے لیے نکلتا ہوں، تو اکثر کسی بوڑھے کرسچن/مسیحی بابا کو دیکھتا ہوں، جو سائیکل پر اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جا رہا ہوتا ہے۔ وہی بابا پھر جھاڑو پکڑتا ہے، گٹر صاف کرتا ہے، دوپہر کو چھٹی لے کر بیٹی کو اسکول سے واپس لے کر آتا ہے، پھر کام پر لوٹ جاتا ہے۔ (اور نتیجے میں کراچی کے دفاتر، مارکیٹس میں تعلیم یافتہ کرسچن لڑکیاں ہمیں کام کرتی نظر آتی ہیں)
جب میں وہ باپ دیکھتا ہوں تو میری زندگی کی تمام تھکن، شکایتیں، غم… سب اتر جاتے ہیں۔
اور میں تو اے سی کوچ میں اپنی بیٹی کو چھوڑنے جا رہا ہوں۔”

میری بات سن کر، میں نے دیکھا میری بیٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے نرمی سے کہا:
“بیٹیاں قدرت کا سب سے قیمتی تحفہ ہوتی ہیں، ان کی خواہش مان لینا کسی عبادت سے کم نہیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *